Pakistan Affairs

6/recent/ticker-posts

ارض ِ فلسطین غلامی کے شکنجے میں کب تک ؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک فیصلے نے دنیا کو سیاسی بے چینی کا شکار کر دیا ہے۔ ان کا فیصلہ کسی کے لیے حیران کن نہیں۔ صدر ٹرمپ ایک سال سے اسی قسم کے اقدامات کر رہے ہیں۔ اسی لئے کسی کو حیرانی نہیں ہوئی۔ البتہ اس ایک فیصلے نے چین، یورپی یونین، عرب اتحاد، روس اور مسلمان ممالک کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔ چین اور روس نے بھی مخالفانہ بیانات دئیے ہیں۔ اقوام متحدہ گومگو کی کیفیت میں ہے۔ امریکہ کا نیا دوست، بھارت خارجہ موقف بنا نہیں سکا۔ پاکستان نے فوری رد عمل دیا۔ 

دنیا میں بھونچال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے سفارت خانے کے اس انتظامی عمل میں کئی تاریخی حقیقتوں کو نظر انداز کیا گیا۔ دنیا کے نزدیک امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی عالمی امن کے لیے بھیانک خطرہ ہے۔ اس صدارتی فیصلے پر پہلا رد عمل خود امریکہ کے اندر سامنے آیا۔ امریکی صدر کو اپنے وزیر خارجہ ٹلرسن ، وزیر دفاع میٹس اور ڈائریکٹر سی آئی اے کی حمایت حاصل نہیں۔ یہ تینوں سفارت خانے کی منتقلی کے مخالف ہیں۔ حتیٰ کہ منتقلی کی قرارداد پر دستخط کرنے والی امریکی سینٹر ڈین فیسٹائن بھی اپنے صدر پر برس پڑیں۔ انہوں نے امریکی صدر کو عالمی امن کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

امریکی مبصرین کے نزدیک اب محض منتقلی کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمی امن کا مسئلہ بن چکا ہے دنیا میں امن ہو گا یا نہیں اب اسی سے یہ سوال جڑا ہوا ہے کہ امریکی سفارت خانہ منتقل ہو گا یا نہیں۔ فلسطینیوں کی جانب سے مظاہروں کا آغاز ہو چکا اسی قسم کی کیفیت دنیا کے ہر حصے میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اس ایک فیصلے نے امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں نہایت نا پسندیدہ ملک بنا دیا ہے ۔ دوست ممالک بھی حیران ہیں، اور شائد پریشان بھی۔ وہ تنقید بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی جنگ 1947ء کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ نہیں لیا اگر وہ 70 سال پرانی تاریخ پر ایک نظر ڈال لیتے تو شاید یہ فیصلہ نہ کرتے کیونکہ اسرائیل جسے جنگ آزادی قرار دیتا ہے وہ انتہائی متنازعہ اور عرب علاقوں پر قابض ہونے کی جنگ تھی یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے 1947ء میں ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے باوجود اپنا سفارت خانہ منتقل نہیں کیا۔ اس سے دنیا بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ سکتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امریکہ کا یہ فیصلہ اسرائیل کے حق میں نہیں اس کی بربادی کا پیغام ہے اس سے ایک طرف تو اسرائیل کو زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوسری طرف وہ یورپ میں اپنے کئی دوست کھو دے گا ۔

یہی وجہ ہے کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی دونوں کے سربراہان اپنی پارٹی کے خیالات کے مطابق اسے منتقل کرنے کی قرارداد کو ویٹو کرتے ر ہے۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں وہ امریکی خارجہ پالیسی کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں یر غمال بننے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے اور یہ خارجہ پالیسی گزشتہ 40 سال سے یرغمال بنی ہوئی ہے۔ مگر اب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسے اعلان جنگ سے تعبیر کیا گیا ہے بیت المقدس ایک متحدہ شہر نہیں اس کا کچھ حصہ اسرائیل کے حصے میں ہے اور کچھ متنازعہ ہے اس میں ابھی اسرائیل کی آزاد ریاست کا دارالحکومت بننا ہے صدر ٹرمپ ان دونوں میں توازن کس قدر قائم کریں گے۔ 1947ء میں اقوام متحدہ نے یہودی ریاست کے قیام کے وقت بیل فور ڈکلیریشن کی وجہ سے بیت المقدس کو نظر انداز کیا۔

در حقیقت ایک مردہ مسئلے پر عملدرآمد کیا گیا۔ عرب دنیا اور اسلامی ممالک اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ فلسطینی ریاست کا مقصد لازمی طور پر بیت المقدس تھا۔ لیکن عالمی برادری بیت المقدس کے بارے میں اسرائیل پر پابندیاں عائد کر نے میں ناکام رہیں۔ عالمی سطح پر بیت المقدس کے صحیح سٹیٹس کو کبھی سمجھا ہی نہیں گیا۔ حالانکہ دو ریاستوں کے حل کے منصوبے میں بیت المقدس کبھی رکاوٹ نہیں ر ہا۔ اب فلسطینی اتھارٹی یا اس کے عرب ہمسائے اس امن پر کیسے راضی ہوں گے جس میں عرب دنیا کا اہم ترین خطہ یعنی مغربی بیت المقدس اسرائیل میں شامل ہو گا جہاں ان کے اہم مقامات مقدسہ ہیں۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے اردن کے زیر قبضہ بیت المقدس کے اولڈ سٹی پر قبضہ جما لیا اسرائیل کا یہ اقدام عالمی برادری نے تسلیم نہ کیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ کسی بھی یورپی ملک نے اپنا سفارت خانہ اس جگہ منتقل نہیں کیا۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بھی فلسطین کا دارالحکومت بیت المقدس ہی قرار پایا اب ان قرار دادوں اور موجودہ صورتحال کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کس طرح اپنے زیر قبضہ علاقوں کو ملک کا حصہ قرار دے سکتا ہے ۔ تاہم اسرائیل جہاں چاہتا ہے رکاوٹیں کھڑ ی کر کے اپنا تسلط قائم کر لیتا ہے۔ فلسطینیوں کو شنوائی نہیں مل سکی کیونکہ وہ بیت المقدس اور اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ وہ 1949ء سے بھاری قربانیاں دے رہے ہیں۔ ورنہ 2000-2001 اور 2008ء میں اسی قسم کی کئی پیشکشیں کی گئیں ہر بار یہ پیشکشیں مسترد ہوئیں پہلے یاسر عرفات اور بعد ازں ان کے پیشرومحمود عباس نے مقدس مقامات کے بغیر ملنے والی ایسی آزادی کو ٹھکرا دیا ۔

صہیب مرغوب


 

Post a Comment

0 Comments